ڈھلتے سورج کے ساتھ ساتھ پارک یں لوگوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی.پارک کے سامنے کی سڑک پر گھروں کو لوٹنے والے ملازم پیشہ افراد کی دوڑتی ہوئی گاڑیوں کا ہجوم تھا-پارک اور سڑک کے درمیان ایک چھوٹی سی پارکنگ تھی جہاں پارک کا بڑا مرکزی دروازہ کھلتا تھا-دروازے کے ایک طرف ایک اندھا فقیر بیٹھا تھوڑے تھوڑے وقفے بعد "دینے والے کی خیر ہو خدا تمہاری آنکہیں سلامت رکھے " کی صدا لگا رہا تھا-پارک میں آنے جانے والوں میں سے کوئی اگر ترس کھا کر اس کے دھاتی کٹورے میں کچھ سکے ڈال دیتا تو اسکی صدا ایکدم بلند ہو جاتی -پارک کے اندر دروازے سے کچھ ہی فاصلے پر ایک میز پردو نو جوان بیٹھے تھے- اپنے چہرے بشرے سےدونوں ہی پڑھے لکھے اور شریف گھرانے کے معلوم ہو رہے تھے ،خاصی دیرسے دونوں گفتگو میں مصروف تھے-
پہلا "سنا ہے تمہاری پروموشن ہو گئی ہے "
"نہیں یار تمہیں کس نے بتایا ؟"
"بس اڑتی اڑتی خبر سنی ہے"
اسپر دوسرے نے تا سف بھرے لہجے میں جواب دیا "نہیں ،ہر بار کوئی بڑی سفارش آڑے آ جاتی ہے "
"پچھلی مرتبہ تم نے کیا کیا تھا ؟"
"کرنا کیا تھا،پچھلے افسر کی ایک گاڑی کسٹم میں پھنسی تھی،جیسے ہی مجھے پتا چلا... ابا جی کی منت کر کے اسکا کام کرا دیا"نو جوان نے فخر سے جواب دیا،مگر پھر کچھ خیال آتے ہی اس کے چہرے پہ تاسف کے آثار نظر آے جیسے اسے اپنی اس بات پر پشیمانی ہو -
"تم تھوڑے پیسے کیوں خرچ نہیں کرتے ؟"پہلے نو جوان نے پوچھا -
"شاید اس دفعہ یہی کرنا پڑے"دوسرے نوجوان نے آہ بھری-
کچھ دیرخاموشی رہی-"کرپشن نے سارا نظام تباہ کر کے رکھ دیا ہے .....کوئی شریف آدمی اپنا جائز کام بھی جائز طریقے سے نہیں کرا سکتا"
"تم صحیح کہتے ہو"پہلے نے تائید کی-
تھوڑی دیر کے لیے دونوں خاموش ہو گئے اور پارک میں آنے جانے والے لوگوں کو دیکھنے لگے-ان میں زیادہ تر متوسط طبقے کے دفتری ملازم تھے جو دن بھر کی تکان دور کرنے ادھر چلے آے تھے-کچھ کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے.ان سب کے چہروں میں یکسانیت تھی،پریشانی اور تفکر کی لکیریں ان کی پیشانیوں پر نمایاں تھیں ،اس کے باوجود وہ مسکرا رہے تھے -دوسرا نوجوان بغور ان کے چہروں کو دیکھ رہا تھا ،جیسے وہ جانتا ہو کہ وہ کس عذاب سے گز رہے ہیں-
یکدم فقیر کی صدا بلند ہو گئی "دینے والے کی خیر ہو،خدا تمہاری آنکھیں سلامت رکھے"شاید کسی آنکھوں والے نے اس کی نابینگی دیکھ لی تھی -
ساتھ ہی ان دونوں کی توجہ فقیر کی طرف مبذول ہو گئی-
"یہ دیکھو"نو جوان فقیر کی طرف اشارہ کرتے ہوے بولا "ایک طرف ہم لوگ ہیں جو محنت مشقت کر کے کماتے ہیں،دوسری طرف یہ چور اچکے ہیں ....جنہوں نے سارے شہر پہ قبضہ جمایا ہوا ہے "
"ہو سکتا ہے یہ واقع ہی مجبور اور بے بس ہو"دوسرے نے فقیر کی طرفداری کرنا چاہی -
"نہیں میرے دوست ہرگز نہیں! میں ان لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں......بھیک مانگنے کے لئے یہ ہر ذلیل ترین حرکت کرتے ہیں....اور تو اور اور اپنی سگی اولاد تک کو لنگڑا اور لولا کر کے شہر کے بازاروں میں ڈال آتے ہیں...."
"تم غربت بھی تو دیکھو جس نے لوگوں کو ایسی ذلیل اور گھٹیا حرکتوں پر مجبور کیا ہے "
اس پر نوجوان برہم ہو گیا،اسنے پہلے تو ان لوگوں کو تین چار غلیظ گالیاں دیں پھر کہنے لگا "اگر یہ ھڈ حراموں کی طرح اپنے گھروں میں نہ پڑے رہیں اور محنت مزدوری کرنے لگ جایں تو غربت بھی ختم ہو جاۓ …..ان -----کو کو گھروں میں بیٹھنے اور بچے پیدا کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں "
"تو قانون ان کا سدباب کیوں نہیں کرتا "اس نے کھوے کھوے لہجے میں کھا ،اسکا انداز صاف ظاہر کر رہا تھا کہ وہ پہلے ہی اسکا جواب جانتا ہے-
"قانون کی----"نوجوان جوابھی تک سیخ پا تھا اس نے قانون کو بھی بے نقط دو چار گالیاں دے ڈالیں اور کہا "جس منحوس اور ----- قانون کی تم بات کرتے ہو وہ ہم جیسے شریف لوگوں پر تو ہاتھ ڈالتا ہے،مگر ان کا علاج نہیں کرتا ،کونسا ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دلالی نہیں ہوتی ،رشوت ،غبن ،سفارش کے نام پر سب اپنی عزتوں کے سر بازار دام لگاتے ہیں …..لیکن اگر میرے یا تمہارے جیسا کوئی معمولی بندہ ان کے ہتھے چڑھ جاے تو سب کے سامنے ننگا کر کے رخ دیتے ہیں "
دوسرا نوجوان کچھ نہ بولا -
پارک میں اب اندھیرا پھل رہا تھا ،اسوقت پارک میں آنے والوں کی نسبت پارک سے جانے والوں کی تعداد زیادہ تھی -عام دنوں میں میں پارک میں اس وقت لوگ زیادہ تعداد میں آتے تھے،مگر شہر میں چوری ڈکیتی کی بڑھتی ہی وارداتوں نے بہت کچھ بدل دیا تھا -فقیر بلا تردد وہیں بیٹھا تھا -بڑھتے ہوئے اندھیرے کے ساتھ ساتھ سناٹا بھی پھیلتا جا رہا تھا-
دوسرے نوجوان نے بڑھتی ہوئی خاموشی کو توڑ اور اپنے ساتھی سے مخاتب ہوا"تمہارے بھا ئی کے مقدمے کا کیا بنا ؟"
"کیا بننا تھا ...کمینے ڈی آئ جی نے خاندان بھر کو پریشان کر رکھا ہے "
"کیا مطلب؟تم نے تو بتایا تھا کے وہ تمہارے اب جی کا پرانا دوست ہے اس لئے تمہارے بھی کو زیادہ مسلہ نہیں ہوگا "نوجوان نے دلچسپی سے پوچھا -
"ہان مگر اس ذلیل آدمی پر آجکل زیادہ قانون پرستی کا بھوت سوار ہے .....کہہ رہا تھا کے کسی صورت بھی اس کو معاف نہیں کرے گا اور یہ کہ بڑے عرصے سے اس پر نظر رکھے ہوئے تھا"اسنے بالکل عام انداز میں جواب دیا -
"اور آئ جی ؟"
"وہ کہتا ہے کے اب بات بہت دور تک چلی گئی ہے ،اگر معاملہ چھوٹی موٹی رقم کا ہوتا تو شا ید وہ بات رفع دفع کرا دیتا مگر بات لاکھوں کی ہے"
"تمہارے ابا جی کو تمہارے بھائی کی حرکتوں کا علم تھا ؟"
"اگر ابا جی کو پتا ہوتا تو خود ہی اسے گولی مار دیتے ،لیکن جس طرح ڈی آئ جی نے ہمیں خاندان والوں کے سامنے ذلیل کرایا ہے ،اسکی وجہ سے اب اسکی رہائی ابا جی کی انا کا مسلہ بن گئی ہے "
"پھر اب تم لوگ کیا کرنے والے ہو ؟"
"ابا جی گواہوں سے رابطے میں ہیں ،تینوں نہایت غریب آدمی ہیں اس لئے امید ہے زیادہ دشواری نہیں ہوگی "
"اچھا ہے ...ان غریبوں کی بھی زنگی سنبھل جاۓ گی "نوجوان نے خشک لہجے میں کہا -
پہلے نوجوان نے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی اور بولا "یار مجھے ایک ضروری کام نبٹانا ہے انشاللہ کل ملاقات ہوگی "
دونوں نے گرمجوشی سے ہاتھ ملاۓ اور نوجوان چلا گیا -دوسرا نوجوان وہیں بیٹھا رہا -
پارک میں اب برقی قمقمے روشن تھے- لوگوں کی تعداد بہت کم رہ گئی تھی،اکا دکا جو آدمی نظر آ جاتے وہ یا تو پارک کے مالی تھے یا دیہاڑی دار مزدور،جن کے پاس سر چھپانے کو کوئی ٹھکانہ نہ تھا-ان کو ڈاکوؤں سے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہ تھا،اور ہوتا بھی کیوں ان کے پاس جان کے علاوہ تھا ہی کیا جو انہیں دے سکتے-فقیر بھی ابھی تک اپنی جگہ پر موجود تھا،اسکی آواز خاصی مدھم ہو گئی تھی ،تاہم جیسے ہی کوئی راہگیر یہ گاڑی قریب سے گزرتی اسکی طبیعت میں بھونچال آ جاتا -
نوجوان کی آنکھیں خلا میں گھور رہیں تھیں ،وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا-اس کے چہرے کے تاثرات اسکے اندر چلنے والی جنگ کو صاف ظاہر کر رہے تھے-اسکے چہرے پر کرب اور تکلیف کے تاثرات ابھرے-خیالات کی تکلیف سے نجات پانے کے لئے اسنے ایک سگریٹ سلگا لی،بجاتے کش لگانے کے وہ کرسی سے ٹیک لگا کر اونگھنے لگا اسکو ہوش تب آیا جب ہوا سے تمباکو کی بو ختم ہوئی-
نوجوان نے گھڑی پر نظر ڈالی ،رات کے آٹھ بج چکے تھے -اٹھنے سے پہلے نوجوان نے اپنے اردگرد نظر ڈالی ،اور ایک سرد آہ بھری-پارک کے مرکزی دروازے سے گزرتے ہوئے اسکی نظر فقیر پر پڑی-نوجوان کے ذہن میں یکدم ایک خیال آیا،ساتھ ہی اسنے اپنی جیب سے بٹوہ نکالا اور تمام رقم فقیر کے سامنے پڑے کٹورے میں پھینک دی-رقم کے وزن سےکٹورے میں پیدا ہونی والی جھنجھناہٹ نے فقیر کو جھنجھوڑ ر دیا اور وہ بلند آواز میں نوجوان کو دعائیں دینے لگا "خدا تمہاری زندگی سلامت رکھے،خود تمہارے رزق میں برکت دے،خدا تمہاری آنکھیں محفوظ رکھے "
" شاید میری آنکھیں بھی ٹھیک ہو جایں " نوجوان نے وہاں سے گزرتے ہوئے دل میں سوچا -
اسکی کار پارکنگ کے آخری کونے میں کھڑی تھی جو مرکزی دروازے سے تقریبآ تین چارفرلانگ دور تھا-نوجوان ٹہلتا ہوا ہوا اپنی گاڑی تک پہنچا ،اس سے پہلے کے وہ جیب سے چابی نکلتا ایک موٹرسائیکل اسکے بالکل سامنے آ کر رکی -موٹر سائیکل پر دو نقاب پوش آدمی سوار تھے ،ان میں سے ایک نے نیچے اتر کر نوجوان پر اپنا ریوالور تان لیا
"اپنی نقدی میرے حوالے کر دو"
نوجوان بوکھلا گیا "مگر میرے پاس اسوقت تمہیں دینے کو کچھ نہیں ہے"
وہ سڑک رات کے اسوقت عموما سنسان ہوتی تھی،سات آٹھ ڈرائیوروں نے گزرتے ہوئے یہ منظر دیکھا مگر ڈر کے مارے کسی میں انکو روکنے کی ہمت نہ پڑی -
"میں کہتا ہوں رقم فورا میرے حوالے کر دو ورنہ میں تمہیں جان سے مار دونگا"یہ کہتے ہوئے نقاب پوش نے ریوالور اسکے چہرے کے سامنے لہرایا پھر اسکے سر کا نشانہ لیتے ہوئے آگے بڑھا-
گھبراہٹ میں نوجوان پیچھے کو ہٹا اور اسکا پیر کسی پھسلنے والی چیز پر جا پڑا -خوف کی وجہ سے نوجوان اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور پشت کے بل گرا ،نقاب پوش نے گھبراہٹ میں گولی چلا دی،جو سیدھی نوجوان کی گردن پر لگی خوں کا ایک فوارہ ہوا میں بلند ہوا اور وہ تڑپنے سے پہلے ہی ٹھنڈا ہو گیا -
نقاب پوش نے ریوالور اپنی شرٹ کے نیچے چھپایا اور وہ دونوں اپنی موٹر سائیکل پر فرار ہو گئے -ریوالورپہ سائلنسر لگا ہونے کی وجہ سے زیادہ شور نہ ہوا-
حادثے کے تقریبا آدھے گھنٹے بعد ایک پیدل راہگیر کا ادھر سے گزر ہوا تو اسنے لاش دیکھتے ہی پولیس کو بلا لیا ،آدھے گھنٹے تک پولیس شواہد اکٹھے کرنے میں مصروف رہی اسکے بعد وہ لاش اور گاڑی لیکر چلے گئے-
رات کے تقریبا نو بجے تھے سڑک بالکل سنسان تھی،مگر فقیر ابھی تک دروازے کے ساتھ ٹیک لگاے بیٹھا تھا-ہر طرف مکمل سناٹا تھا -کبھی کبھار کسی کتے کے بھونکنے کی آواز سے یہ سکوت ٹوٹتا ،یا اگر کوئی گاڑی پارک کے مرکزی دروازے کے سامنے سے گزرتی تو فقیرکی صدا گونجتی "دینے والے کی خیر ہو،خدا تمہاری آنکھیں سلامت رکھے"-
PS:After a long leave from Internet Bloging,I finally decided to get it here."BLINDS" as it says , I think we all are.Enjoy Reading.